Waseem khan

Add To collaction

08-May-2022 لیکھنی کی کہانی -بدلہ قسط 1


 بدلہ 
از مشتاق احمد 
قسط نمبر1

گاڑھی اپنی منزل کی طرف رواں تھی۔
 تقریبا فل تھی۔ سب آپس میں باتیں کر رہے تھے۔
 کچھ چپ بیٹھے تھے۔ 
کچھ اونگھ رہے تھے۔ 
ایک سٹاپ پر بوڑھا آدمی سوار ہوا۔ 
لوگوں نے جگہ دی۔ کچھ دیر کے بعد لوگوں نے دیکھا کے اسکی تھوک اس کے منہ سے نکلتی ہے جس کو وہ نگلتا نہیں بلکے بہنے دے رہا ہے جو کے اس کی داڑھی کو بھر کے اس کے کپڑوں تک گر رہی تھی۔
 سب مسافروں نے اسکو دیکھنا شروع کر دیا سب کو گھن آ رہی تھی۔
 وہ فاصلہ چھوڑ کر بیٹھنے لگے۔
 آس پاس کے مسافر اٹھ کر اس سے دور بیٹھنے لگے ۔۔۔۔۔
ایک دوسرے سے بول رہے تھے کب اترے گا یہ۔ 
کیا مسلہ ہے اس کے ساتھ۔
 وہ بوڑھا سن رہا تھا سب باتیں چپ کر کے ۔
پر آنکھیں بند تھیں اور آنسو گر رہے تھے۔ 
مسافروں کو اس سے ہمدردی ہوئی۔ 
ایک بولا آپ یہ ایسا کیوں کر رہے ہیں۔ 
دوسرا بولا کویئ پریشانی ہے آپ کو۔ 
تیسرے نے مداخلت کی۔ بیمار ہو۔ 
بوڑھے نے درد بھری آنکھوں سے سب کو دیکھا۔ 
بوڑھا آدمی بولا یہ ایک لمبی کہانی ہے ۔
ایک نے کہا آپ بتاؤ ۔
تم لوگوں کو یقین نہیں اے گا رہنے دو۔
 سب اس سے ہمدردی کر رہے تھے۔ آپ بتاؤ۔ 
اگر تم سب ضد کر رہے ہو تو بتاتا ہوں۔ 
میرا نام عثمان ہے پھر اپنے ماضی میں کھو کر بتانا شروع کر دیا۔
عثمان کے ابو امان  ایک بڑے زمیندار تھے۔ 
جن کے تین بیٹے تھے۔ عثمان جبران قربان ۔
عثمان ان میں چھوٹا تھا۔ 
بہت خوبصورت تھا چہرہ بھی اور جسم بھی۔
 ہر لحاظ سے پرفیکٹ تھا۔ 
بڑے بھائی زمینداری میں لگ گئے پھر وقت پر امان اپنے بیٹوں کی شادی بھی کرتا گیا۔ 
جبران اور قربان زیادہ نہیں پڑھے تھے نہ انکو شوق تھا۔ 
ناز اور نخرہ تو سب میں تھا پر عثمان تو کسی کو خاطر میں ہی نہ لاتا تھا۔ 
پڑھائی میں بھی اچھا تھا۔ 
شہر میں پڑھنے کے لئے چلا گیا۔
 لڑکیاں بہت آگے پیچھے گھومتی تھیں پر وہ اس لحاظ سے سخت مزاج تھا۔ 
شہر میں اس کے ابو نے ہاسٹل میں نہیں رہنے دیا تھا۔
 فلیٹ میں رہتا تھا اپنے ابو کے حکم کے تحت۔
 ایک دن واپس جا رہا تھا پڑھ کے کہ سڑک کنارے ایک لڑکی دیکھی جو بس کے انتظار میں تھی۔ 
یہ تو حور  ہے میری کلاس فیلو۔
گاڑھی جا کر روکی میں آپ کو گھر چھوڑ دیتا ہوں۔ جی نہیں میں چلی جاؤں گی ویسے بھی روز اسی طرح ہی میری روٹین ہے۔ 
سخت لہجے میں بولی۔
 اوکے مرضی آپ کی عثمان اپنے فلیٹ آ گیا۔ 
 عثمان کو شکار کا بہت شوق تھا۔ 
انکا ایک گروپ تھا جو ہر سال شکار کے لئے جاتا وہاں انکو دو دو ہفتے یا مہینہ تک آ جاتا۔ 
اس کے ابو ارمان نے اسکی عادت چھڑانے کی بہت کوشش کی۔
 بہت سمجھایا کے بےزبان پرندوں جانوروں کے بھی گھر بچے ہوتے ہیں ۔
انکی آہ لگ جائے گی پر عثمان اپنے شوق میں اتنا مست تھا کہ اس پر اثر ہی نہ ہوتا۔ 
جب عثمان نے اس لڑکی کو باہر پردہ میں دیکھا تب سے اس کے ذہن میں خیال آ رہا تھا کہ اس کے بھائیوں کی شادی ہو گئی۔
 اب اس کی باری ہے۔
شادی تو اسکو کرنی تھی تو کیوں نہ اسی لڑکی سے کرے۔ 
جب وہ یونی میں لڑکیوں کو دیکھتا دوپٹہ تو ہوتا ہی نہیں تھا۔
 لباس بھی وہ جو جسم کی نمائش کرتا عثمان کو یہ سب دیکھ کر کوفت ہوتی تھی ۔
 اب جب اسنے پردے میں ایک لڑکی دیکھی تو پہلی بار اس کے دل نے اسکی چاہ کی۔
 مجہے اس کا پتہ لگانا ہے۔ 
لگی بھی شریف تھی وہ۔ 
عثمان کو پتہ لگا کہ وہ مڈل کلاس فیملی ہے۔ ایک بہن اور ایک بھائی ہیں  بس۔
 ابو رٹائرڈ فوجی ہیں 
۔ اس دفع جب گاؤں جاؤں گا تو گھر بات کروں گا عثمان سوچ رہا تھا۔

   1
0 Comments